Wednesday 29 July 2015

ہیر اور رانجھا اگر اس دور میں زندہ ہوتے

0 comments
قارئین ہیر اور رانجھا اگر اس دور میں زندہ ہوتے تو ان کے ملنے کے کئی محفوظ مقامات تھے گلبرگ کے ریسٹورنٹ، شالیمار گارڈن، کالجوں اور یو نیورسٹیوں کے ہاسٹلز اور آج کاکیدو کیوںکہ ان کی کار بہت دور جا چکی ہوتی انہیں ڈھو نڈنے میں ناکامی کا منہ دیکھتا۔
وہ قدیم ہیر تھی، قدروں کی امین ہیر پرانی ڈگر پر چلنے والی،اس دور کی ہیرت ماڈرن، ہیر ؤن کی طرح نئی فلم کے ساتھ نیا ہیرو، ہر صبح کے ساتھ نیا عاشق، ہر شام نیا مقام۔

آج کل یہ نہیں تو کوئی اور سہی
پشاور نہیں تو لاہور سہی

ہیر ایک دیہاتی لڑکی تھی۔ ہیر نئی نئی شہر میں آئی تھی اور ابھی اردو زبان سے واقفیت بھی نہ ہوئی تھی لہذا دیہاتی انداز میں رانجھے سے مخاطب ہو کر کہہ رہی ہے کہ


آج پتلون دے سامنے رانجھا اے
تیری لنگی دی پھبدی چال ہی نئیں
وائلن نال جو ڈانس دا مزہ آوے
تیری ونجلی دے وچ او تان ہی نئیں
نہ تو مالی ڈرائیور نہ کک چنگا
تیرے کول کوئی کسب کمال ای نئیں
تینوں اسی کھڈاوا ای رکھ لیندے
سادے کول کوئی نکڑا بال ای نئیں

Tuesday 28 July 2015

طلباء اور تعمیرِ وطن

1 comments

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

میں یہ جانتا ہوں کہ کوئی بھی قوم اپنے وطن عزیز کی تعمیر و ترقی سے صرفِ نطر نہہیں کر سکتی۔
ہر قوم اپنے ملک کو چار چاند لگانے کے لئے وہ اقدام کرتی ہے  جو اس کے بس میں ہوتے ہیں۔
ہم اپنے وطن عزیز کی خوشحالی کے لئے اور اس کے استحکام سے کیسے غافل رہ سکتے ہیں؟کہ جو کامل نظرئیے کی بناء پر معرض وجود میں آیا اور جس میں ہمارا ہر سانس آزادی کا سانس ہے ہماری ہر دھڑکن آزاد دھڑکن۔

خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

بر صغیر کی تاریخ اس واقعہ کی چشم دید گواہ ہے کہ مسلمان سر تا پا کفن میں لپٹ کر مقصد عظیم لے کر میدان عمل میں آئے۔ اس جرم کی پاداش میں انہوں نے ایسی تکالیف اٹھائیں کہ انسانی آنکھیں اسے دیکھ کر اپنی بینائی کھو بیٹھیں۔ اسلام کے شیدا ئیوں نے اپنے جوان بیٹوں، نو عمر بیٹیوں اور معصوم چہروں کو اپنے سامنے خون کے سمندر میں نہاتے دیکھا۔ انہوں نے ہر ایسی چیز قربان کر دی جو مقصد کی راہ میں حائل نظر آئی، اور ینہوں نے اپنے بدن کا آخری قطرہ تک نچوڑ دیا، اس ملک کی آبیاری کے لئے اس پاک دھرتی کے حصول کے لئے، کہ جہاں آزادی کو ایک مجزوب کی بڑ اور دیوانے کا خواب تصور کیا۔
ہندو قوم کے سب سے بڑے راہنما مہاتما گاندھی اس کو نا ممکن خیال کرتے تھے اور بڑے بڑے دعوے کے ساتھ اسے رد کرتے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہ دیا تھا
"ہندوستان کے ٹکڑے کرنے سے پہلے میرے اپنے جسم کے ٹکڑے کر دو"
پھر چشم زدن میں اس خیال کو کس نے ریزہ ریزہ کیا۔ ہندو کے مہاتما کے خواب کا طلسم کس طرح ٹوٹا۔ ناہونی کو ہونی ، نا ممکن کو ممکن کس نے کیا۔ اس مشکل کو آسان بنانے میں کس کا ہاتھ کار فرما تھا، اور یہ الگ وطن کو حاصل کرنے  کا جزبہ کن کے سینوں میں آگ کی طرح بھڑک رہا تھا۔ یہ سب نوجوان اور با ہمت طلباء کے عزم واضح۔ یقین محکم اور عمل پیہم نے کیا بزرگوں کی کو ششوں اور دعائوں کے ساتھ ہوا۔

یقین محکم عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

دنیائے اسلام آج بری طرح انتشار کا شکار ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ اسلام سے دوری ہے۔آج کے نوجوان تقلید مغرب میں یوں بہے جا رہے ہیں جیسے سیلاب میں اس تیز بہائومیں پانی کے رخ پر بہتے ہوئے اپنی عظیم ثقافت اور اعلی اقدار کو بھی نظر انداز کر دیا اس لئے اس سیلاب کے آگے بند باندھنا ہمارا فرض اولین ہے۔ جیسا کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ


"اپ مستقبل کا معمار قوم ہیں اس لئے جو مشکل کام آپ کے سر پر پڑا ہے اس سے نمٹنے کے لئے اپنی شخصیت میں نظم و ضبط پیدا کیجئے۔ مناسب تربیت حاصل کیجئے، آپ کو پورا احساس ہونا چاہئے کہ آپ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور کتنی شدید ہیں اور ان سے عہدہ براء ہونے کے لئے ہر وقت تیا اور مستعد رہنا چاہئے"

تحریر: خرم شہباز ملہی